سفر سے آئے تو پھر اک سفر نصیب ہوا
کہ عمر بھر کے لیے کس کو گھر نصیب ہوا
وہ ایک چہرہ جو برسوں رہا ہے آنکھوں میں
کب اوس کو دیکھنا بھی آنکھ بھر نصیب ہوا
تمام عمر گزاری اسی کے کاندھے پر
جو ایک لمحہ ہمیں مختصر نصیب ہوا
ہوا میں ہلتے ہوئے ہاتھ اور نم آنکھیں
ہمیں بس اتنا ہی زاد سفر نصیب ہوا
ہوا کے رخ سے پر امید تھا بہت گلشن
پر اب کے بھی شجر بے ثمر نصیب ہوا
بلندیوں کی ہوس میں جو سب کو چھوڑ گئے
کب ان پرندوں کو اپنا شجر نصیب ہوا
لبوں سے نکلیں ادھر اور ادھر قبول ہوئیں
کہاں دعاؤں میں ایسا اثر نصیب ہوا
ادھر چھپائیں تو کھل جائیں دوسری جانب
لباس زیست ذرا مختصر نصیب ہوا
سلیمؔ چاروں طرف تیرگی کے جال گھنے
پہ ہم کو نیشتر بے ضرر نصیب ہوا

غزل
سفر سے آئے تو پھر اک سفر نصیب ہوا
سلیم سرفراز