سفر پہ یوں مصر ہوں میں کہ حوصلوں میں جان ہے
جو لٹ چکا یقین تھا جو بچ گیا گمان ہے
زمین کی کشش کا جال توڑ کر نکل گئیں
مگر یہ طے ہے چیونٹیوں کی آخری اڑان ہے
لہو کے نام لکھ دیے ہیں تیر ابر و باد کے
زمیں ہدف بنی ہوئی ہے آسماں کمان ہے
وہی جو آدھی رات کو چراغ بن کے جل اٹھا
کسی کی یاد کا نہیں وہ زخم کا نشان ہے
مفاہمت کے دیو کا اسیر ہو گیا نظامؔ
میری انا کا وہ پرند جس میں میری جان ہے

غزل
سفر پہ یوں مصر ہوں میں کہ حوصلوں میں جان ہے
نظام الدین نظام