EN हिंदी
سفر پہ یوں مصر ہوں میں کہ حوصلوں میں جان ہے | شیح شیری
safar pe yun musir hun main ki hauslon mein jaan hai

غزل

سفر پہ یوں مصر ہوں میں کہ حوصلوں میں جان ہے

نظام الدین نظام

;

سفر پہ یوں مصر ہوں میں کہ حوصلوں میں جان ہے
جو لٹ چکا یقین تھا جو بچ گیا گمان ہے

زمین کی کشش کا جال توڑ کر نکل گئیں
مگر یہ طے ہے چیونٹیوں کی آخری اڑان ہے

لہو کے نام لکھ دیے ہیں تیر ابر و باد کے
زمیں ہدف بنی ہوئی ہے آسماں کمان ہے

وہی جو آدھی رات کو چراغ بن کے جل اٹھا
کسی کی یاد کا نہیں وہ زخم کا نشان ہے

مفاہمت کے دیو کا اسیر ہو گیا نظامؔ
میری انا کا وہ پرند جس میں میری جان ہے