EN हिंदी
سفر پہ جیسے کوئی گھر سے ہو کے جاتا ہے | شیح شیری
safar pe jaise koi ghar se ho ke jata hai

غزل

سفر پہ جیسے کوئی گھر سے ہو کے جاتا ہے

ذوالفقار عادل

;

سفر پہ جیسے کوئی گھر سے ہو کے جاتا ہے
ہر آبلہ مرے اندر سے ہو کے جاتا ہے

جہاں سے چاہے گزر جائے موج امید
یہ کیا کہ میرے برابر سے ہو کے جاتا ہے

جنوں کا پوچھئے ہم سے کہ شہر کا ہر چاک
اسی دکان رفوگر سے ہو کے جاتا ہے

میں روز ایک زمانے کی سیر کرتا ہوں
یہ راستہ مرے بستر سے ہو کے جاتا ہے

ہمارے دل میں حوالے ہیں ساری یادوں کے
ورق ورق اسی دفتر سے ہو کے جاتا ہے