EN हिंदी
سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا | شیح شیری
safar mein rah ke aashob se na Dar jaana

غزل

سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا

عالم تاب تشنہ

;

سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
پڑے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا

یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا

تمہارا قرب بھی دوری کا استعارہ ہے
کہ جیسے چاند کا تالاب میں اتر جانا

طلوع مہر درخشاں کی اک علامت ہے
اٹھائے شمع یقیں اس کا دار پر جانا

ہم اپنے عشق کی اب اور کیا شہادت دیں
ہمیں ہمارے رقیبوں نے معتبر جانا

ہر ایک شاخ کو پہنا گیا نمو کا لباس
سفیر موسم گل کا شجر شجر جانا

ہم اپنی سادہ دلی میں بھی بے مثال رہے
جو ہم سفر بھی نہ تھا اس کو راہ بر جانا