سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
پڑے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا
یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا
تمہارا قرب بھی دوری کا استعارہ ہے
کہ جیسے چاند کا تالاب میں اتر جانا
طلوع مہر درخشاں کی اک علامت ہے
اٹھائے شمع یقیں اس کا دار پر جانا
ہم اپنے عشق کی اب اور کیا شہادت دیں
ہمیں ہمارے رقیبوں نے معتبر جانا
ہر ایک شاخ کو پہنا گیا نمو کا لباس
سفیر موسم گل کا شجر شجر جانا
ہم اپنی سادہ دلی میں بھی بے مثال رہے
جو ہم سفر بھی نہ تھا اس کو راہ بر جانا
غزل
سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
عالم تاب تشنہ