سفر میں ہی چھپی ان کی خوشی ہے
مسافر کو مسافت بندگی ہے
نظر سب آ رہا ہے صاف کالا
اندھیروں میں بھی کتنی روشنی ہے
پریشاں ہوں میں دن میں روشنی سے
تو شب میں چاندنی پیچھے پڑی ہے
اداسی ہے تو پھیکا رنگ لیکن
یہ مجھ تصویر کا اک رنگ ہی ہے
خطا اس میں نہیں ہے آئینے کی
یہ ساری گرد چہروں پر جمی ہے
بدن میرا ہے اک ویراں مکاں، پر
مکیں بن کر یہ وحشت رہ رہی ہے
گلے لگ کر مرے صحرا جو رویا
جو باقی تشنگی تھی بجھ گئی ہے
زمیں کے پاؤں بھاری ہیں فلک سے
یہ اکھڑی ان منی رہنے لگی ہے
غزل
سفر میں ہی چھپی ان کی خوشی ہے
پوجا بھاٹیا