EN हिंदी
سفر میں ہی چھپی ان کی خوشی ہے | شیح شیری
safar mein hi chhupi unki KHushi hai

غزل

سفر میں ہی چھپی ان کی خوشی ہے

پوجا بھاٹیا

;

سفر میں ہی چھپی ان کی خوشی ہے
مسافر کو مسافت بندگی ہے

نظر سب آ رہا ہے صاف کالا
اندھیروں میں بھی کتنی روشنی ہے

پریشاں ہوں میں دن میں روشنی سے
تو شب میں چاندنی پیچھے پڑی ہے

اداسی ہے تو پھیکا رنگ لیکن
یہ مجھ تصویر کا اک رنگ ہی ہے

خطا اس میں نہیں ہے آئینے کی
یہ ساری گرد چہروں پر جمی ہے

بدن میرا ہے اک ویراں مکاں، پر
مکیں بن کر یہ وحشت رہ رہی ہے

گلے لگ کر مرے صحرا جو رویا
جو باقی تشنگی تھی بجھ گئی ہے

زمیں کے پاؤں بھاری ہیں فلک سے
یہ اکھڑی ان منی رہنے لگی ہے