سفر میں دھوپ ہے تو سائبان بھی ہوگا
زمین ہوگی جہاں آسمان بھی ہوگا
خبر کہاں تھی کہ یہ روح ایک مسجد ہے
سیہ وجود میں نور اذان بھی ہوگا
ترے بدن پہ یہ بوڑھا سفید سر کیسا
جدید بچے بتا کیا جوان بھی ہوگا
مری پسند کے افراد جس میں رہتے ہیں
زمیں پہ ایسا کوئی خاندان بھی ہوگا
سنا ہے شہر خموشاں میں آ گیا ہوں میں
یہیں کہیں کوئی میرا مکان بھی ہوگا
وہ مجھ سے بچھڑا میں رو دھو کے اشکؔ بھول گیا
پتا نہیں تھا کہ دل پر نشان بھی ہوگا
غزل
سفر میں دھوپ ہے تو سائبان بھی ہوگا
پروین کمار اشک