سفر کی حد تھی جو رات تھی
کہیں آگے ارض ثبات تھی
جو اندھیرا تھا بے کنار تھا
کوئی روشنی بے جہات تھی
جو سبھی دیار گرا گئی
وہی باد شہر صفات تھی
یہ مرا وجود چمک اٹھا
مری روشنی مرے سات تھی
جو نہ کھل سکا ترا بھید تھا
جو نہ ہو سکی مری بات تھی

غزل
سفر کی حد تھی جو رات تھی
عمر فرحت