سفر کی دھوپ نے چہرہ اجال رکھا تھا
وہ مر گیا تو سرہانے وصال رکھا تھا
حسین چہرے کشیدہ کیے تھے مٹی سے
بلا کا خاک میں حسن و جمال رکھا تھا
وہ حاشیوں میں ترے سرمگیں محبت تھی
کہ آئنوں میں کوئی عکس ڈال رکھا تھا
فلک کی سانس اکھڑنے لگی تو راز کھلا
کہ آسماں کو زمیں نے سنبھال رکھا تھا
ترا عروج تھا سورج کے ماند پڑنے تک
مرے نصیب میں شب سا زوال رکھا تھا
حصار خواب سے باہر کبھی نکل نہ سکوں
بچھا کے راہ میں پلکوں کا جال رکھا تھا
وہ ایک شخص جو وقت زوال مجھ سے ملا
سنہری آنکھوں میں اس کی ملال رکھا تھا
کسی کو صحرا نوردی سے عشق لاحق تھا
کسی کو شوق نے گھر سے نکال رکھا تھا
اسی نے زہر انڈیلا ہے میری نس نس میں
جو آستین میں اک سانپ پال رکھا تھا
غزل
سفر کی دھوپ نے چہرہ اجال رکھا تھا
سدرہ سحر عمران