سفر کی دھوپ میں چہرے سنہرے کر لیے ہم نے
وہ اندیشے تھے رنگ آنکھوں کے گہرے کر لیے ہم نے
خدا کی طرح شاید قید ہیں اپنی صداقت میں
اب اپنے گرد افسانوں کے پہرے کر لیے ہم نے
زمانہ پیچ اندر پیچ تھا ہم لوگ وحشی تھے
خیال آزار تھے لہجے اکہرے کر لیے ہم نے
مگر ان سیپیوں میں پانیوں کا شور کیسا تھا
سمندر سنتے سنتے کان بہرے کر لیے ہم نے
وہی جینے کی آزادی وہی مرنے کی جلدی ہے
دوالی دیکھ لی ہم نے دسہرے کر لیے ہم نے
غزل
سفر کی دھوپ میں چہرے سنہرے کر لیے ہم نے
ساقی فاروقی