سفر کے تصور سے سہما ہوا ہوں
بڑی دیر سے یوں ہی ٹھہرا ہوا ہوں
ادھر ڈوبتے جا رہے ہیں ستارے
ادھر میں خیالوں میں الجھا ہوا ہوں
جلانے کے قابل نہ لکھنے کے لائق
میں کاغذ ہوں سادہ پہ بھیگا ہوا ہوں
سنبھالے ہوں خود کو بڑی کاوشوں سے
مجھے چھو نہ لینا میں چٹخا ہوا ہوں
مسلسل پڑی ہے کڑی دھوپ مجھ پر
مرا رنگ دیکھو میں کیسا ہوا ہوں
نہ باقی ہے سایہ نہ برگ و ثمر ہیں
میں موسم کی سازش کا مارا ہوا ہوں
تھمیں گی کبھی تو مخالف ہوائیں
یہی سوچ کر خود میں سمٹا ہوا ہوں

غزل
سفر کے تصور سے سہما ہوا ہوں
منیش شکلا