سفر کے ساتھ سفر کی کہانیاں ہوں گی
ہر ایک موڑ پہ جادو بیانیاں ہوں گی
غریب شہر سخن آشنا کو ترسیں گے
ہم اہل غم کے لیے غم کی وادیاں ہوں گی
تمام راستہ کانٹوں بھرا ہے سوچ بھی لے
قدم قدم پہ یہاں بدگمانیاں ہوں گی
بنے بنائے ہوئے راستوں کو ڈھونڈیں گے
وہ جن کے ساتھ میں مردہ نشانیاں ہوں گی
رگوں سے درد کا رشتہ بھی چھوٹ جائے گا
پھر اس کے بعد سلگتی خموشیاں ہوں گی
غزل
سفر کے ساتھ سفر کی کہانیاں ہوں گی
خلیل تنویر