سفر کے بیچ وہ بولا کہ اپنے گھر جاؤں
اندھیری رات میں تنہا میں اب کدھر جاؤں
مجھے بگاڑ دیا ہے مرے ہی لوگوں نے
کوئی خلوص سے چاہے تو میں سنور جاؤں
مری جدائی میں گزری ہے زندگی کیسی
یہ جی میں آئی ہے اس بار پوچھ کر جاؤں
بتا تو کفر کا فتویٰ لگائے گا مجھ پر
خدا میں مانوں تجھے اور پھر مکر جاؤں
تو سبز جھیل کے پانی میں ڈھونڈتا ہی رہے
میں چاند اوک میں بھر لوں کمال کر جاؤں
بلا کا خوف تھمایا ہے آئنوں نے مجھے
میں عکس اپنا جو دیکھوں تو جیسے ڈر جاؤں
غزل
سفر کے بیچ وہ بولا کہ اپنے گھر جاؤں
سدرہ سحر عمران