سفر کے بعد بھی سفر کا اہتمام کر رہا ہوں میں
عجیب بے دلی سے ہر جگہ قیام کر رہا ہوں میں
یہ بات بات پر اٹھانا ہاتھ بد دعا کے واسطے
مرا یقین کر حلال کو حرام کر رہا ہوں میں
یہ لوگ خواب اور پھول سے پناہ مانگنے لگے
بس اتنا سوچ کر ہی بات کو تمام کر رہا ہوں میں
ہر ایک لفظ پر اکھڑ رہی ہے بار بار سانس یہ
مجھے تو لگ رہا ہے آخری سلام کر رہا ہوں میں
کچھ اس طرح کی تہمتیں لگائی جا رہی ہیں مجھ پہ اب
خموش رہ کے اپنے آپ سے کلام کر رہا ہوں میں

غزل
سفر کے بعد بھی سفر کا اہتمام کر رہا ہوں میں
ازلان شاہ