EN हिंदी
سفر کٹھن ہی سہی جان سے گزرنا کیا | شیح شیری
safar kaThin hi sahi jaan se guzarna kya

غزل

سفر کٹھن ہی سہی جان سے گزرنا کیا

ظفر اقبال

;

سفر کٹھن ہی سہی جان سے گزرنا کیا
جو چل پڑے ہیں تو اب راہ میں ٹھہرنا کیا

جو دل میں گونجتی ہو آنکھ سے جھلکتی ہو
کسی کے سامنے اس بات سے مکرنا کیا

انہی رواں دواں لہروں پہ زندگی کٹ جائے
ہو تیرا ساتھ میسر تو پار اترنا کیا

ملے نہ گوہر مقصود ڈوب کر بھی اگر
تو لاش بن کے پھر اس بحر سے ابھرنا کیا

جس آب رود کی اوقات چند قطرے ہو
تو اس کو پھاندنا کیا اس میں پانو دھرنا کیا

جہاں غرور ہنر پروری ہو پنبۂ گوش
وہاں تکلف عرض نیاز کرنا کیا

فساد خلق بھی ہنگامہ دیدنی تھا ظفرؔ
پھر ایک بار وہی شوشہ چھوڑ ڈرنا کیا