EN हिंदी
سفر کا رخ بدل کر دیکھتا ہوں | شیح شیری
safar ka ruKH badal kar dekhta hun

غزل

سفر کا رخ بدل کر دیکھتا ہوں

رام اوتار گپتا مضظر

;

سفر کا رخ بدل کر دیکھتا ہوں
کچھ اپنی سمت چل کر دیکھتا ہوں

مقدر پھول ہیں یا ٹھوکریں پھر
کسی پتھر میں ڈھل کر دیکھتا ہوں

مجھے دیتی ہے کیا کیا نام دنیا
ترے کوچے میں چل کر دیکھتا ہوں

تپش بیباکیوں کی کم ہو شاید
لہو سورج پہ مل کر دیکھتا ہوں

بھروسہ تو نہیں وعدے پہ تیرے
مگر پھر بھی بہل کر دیکھتا ہوں

یہ وہ ہیں یا کہ میرا واہمہ ہے
انہیں پھر آنکھیں مل کر دیکھتا ہوں