سفر کا رخ بدل کر دیکھتا ہوں
کچھ اپنی سمت چل کر دیکھتا ہوں
مقدر پھول ہیں یا ٹھوکریں پھر
کسی پتھر میں ڈھل کر دیکھتا ہوں
مجھے دیتی ہے کیا کیا نام دنیا
ترے کوچے میں چل کر دیکھتا ہوں
تپش بیباکیوں کی کم ہو شاید
لہو سورج پہ مل کر دیکھتا ہوں
بھروسہ تو نہیں وعدے پہ تیرے
مگر پھر بھی بہل کر دیکھتا ہوں
یہ وہ ہیں یا کہ میرا واہمہ ہے
انہیں پھر آنکھیں مل کر دیکھتا ہوں

غزل
سفر کا رخ بدل کر دیکھتا ہوں
رام اوتار گپتا مضظر