سفر اک دوسرے کا ایک سا ہے
بدن منزل نہیں ہے مرحلہ ہے
مرے ماتھے پہ جو تابندگی ہے
فنا ہونے سے پہلے کی قبا ہے
میں تجھ کو عمر ساری یاد آؤں
ترے اس بھولنے کی یہ سزا ہے
وہ محفل میں وہی تنہائی میں بھی
مجھی میں آ کے مجھ کو ڈھونڈھتا ہے
تری نظروں سے گزری رہ گزر بھی
ہزاروں منزلوں کا راستہ ہے
غزل
سفر اک دوسرے کا ایک سا ہے
رینو نیر