EN हिंदी
سفر ہے دشوار خواب کب تک بہت پڑی منزل عدم ہے | شیح شیری
safar hai dushwar KHwab kab tak bahut paDi manzil-e-adam hai

غزل

سفر ہے دشوار خواب کب تک بہت پڑی منزل عدم ہے

نسیم دہلوی

;

سفر ہے دشوار خواب کب تک بہت پڑی منزل عدم ہے
نسیمؔ جاگو کمر کو باندھو اٹھاؤ بستر کہ رات کم ہے

نسیمؔ غفلت کی چل رہی ہے امنڈ رہی ہیں قضا کی نیندیں
کچھ ایسا سوئے ہیں سونے والے کہ جاگنا حشر تک قسم ہے

جوانی و حسن و جاہ و دولت یہ چند انفاس کے ہیں جھگڑے
اجل ہے استادہ دست بستہ نوید رخصت ہر ایک دم ہے

بسان‌ دست سوال سائل تہی ہوں ہر ایک مدعا سے
نیاز ہے بے نیازیوں سے بغل میں دل صورت صنم ہے

مآل کار جہان فانی کبھی نہیں ایک قاعدے پر
جو چار دن ہے وفور راحت تو بعد اس کے غم و الم ہے

دریغ کرنا نہ زور بازو مٹا لے ساری کدورتوں کو
ہوس نہ رہ جائے کوئی قاتل کہ سر تہ خنجر دودم ہے

زبان روکو بہک رہے ہو سرور دوشینہ جوش پر ہے
مے وصال شب تمنا ہر ایک لب سے ابھی بہم ہے

یہ مصرع مخبر مصیبت کمال ہم کو پسند آیا
نسیمؔ جاگو کمر کو باندھو اٹھاؤ بستر کہ رات کم ہے