سفر گماں ہے راستہ خیال ہے
چلو گے میرے ساتھ کیا خیال ہے
اگر جہان خوشنما فریب ہے
تو سب فریب ہے خدا خیال ہے
نظر کو عکس جان کی للک ہے اور
غضب یہ ہے کہ آئنہ خیال ہے
کسی نظر کی روشنی سے منسلک
یہ طاق میں دھرا دیا خیال ہے
کبھی یہاں وہاں بھٹک کے رہ گیا
کبھی خیال سے ملا خیال ہے
مجھے بھی اب نہیں ہے اس کی آرزو
اسے بھی اب کہاں مرا خیال ہے
دھواں ہوا میں اڑ گیا شمائلہؔ
سخن ترا بجھا ہوا خیال ہے
غزل
سفر گماں ہے راستہ خیال ہے
شمائلہ بہزاد