صفائی اس کی جھلکتی ہے گورے سینے میں
چمک کہاں ہے یہ الماس کے نگینے میں
نہ توئی ہے نہ کناری نہ گوکھرو تس پر
سجی ہے شوخ نے انگیا بنت کے مینے میں
جو پوچھا میں ''کہاں تھی'' تو ہنس کے یوں بولی
''میں لگ رہی تھی اس انگیا موئی کے سینے میں''
پڑا جو ہاتھ مرا سینے پر تو ہاتھ جھٹک
پکاری! ''آگ لگے اوئی اس قرینے میں''
جو ایسا ہی ہے تو اب ہم نہ روز آویں گے
کبھو جو آئے تو ہفتے میں یا مہینے میں
کبھو مٹک کبھی بس بس کبھو پیالہ پٹک
دماغ کرتی تھی کیا کیا شراب پینے میں
چڑھی جو دوڑ کے کوٹھے پہ وہ پری اک بار
تو میں نے جا لیا اس کو ادھر کے زینے میں
وہ پہنا کرتی تھی انگیا جو سرخ لاہی کی
لپٹ کے تن سے وہ تر ہو گئی پسینے میں
یہ سرخ انگیا جو دیکھی ہے اس پری کی نظیرؔ
مجھے تو آگ سی کچھ لگ رہی ہے سینے میں

غزل
صفائی اس کی جھلکتی ہے گورے سینے میں
نظیر اکبرآبادی