صفاۓ حیرت آئینہ ہے سامان زنگ آخر
تغیر آب بر جا ماندہ کا پاتا ہے رنگ آخر
نہ کی سامان عیش و جاہ نے تدبیر وحشت کی
ہوا جام زمرد بھی مجھے داغ پلنگ آخر
خط نوخیز نیل چشم زخم صافیٔ عارض
لیا آئینہ نے حرز پر طوطی بچنگ آخر
ہلال آسا تہی رہ گر کشادن ہائے دل چاہے
ہوا مہ کثرت سرمایہ اندوزی سے تنگ آخر
تڑپ کر مر گیا وہ صید بال افشاں کہ مضطر تھا
ہوا ناسور چشم تعزیت چشم خدنگ آخر
لکھی یاروں کی بد مستی نے میخانے کی پامالی
ہوئی قطرہ فشانی ہائے مے باران سنگ آخر
اسدؔ پردے میں بھی آہنگ شوق یار قائم ہے
نہیں ہے نغمے سے خالی خمیدن ہائے چنگ آخر
غزل
صفاۓ حیرت آئینہ ہے سامان زنگ آخر
مرزا غالب