EN हिंदी
صدقے ترے ہوتے ہیں سورج بھی ستارے بھی | شیح شیری
sadqe tere hote hain suraj bhi sitare bhi

غزل

صدقے ترے ہوتے ہیں سورج بھی ستارے بھی

ناطقؔ لکھنوی

;

صدقے ترے ہوتے ہیں سورج بھی ستارے بھی
ہم کس سے کہیں دل ہے سینے میں ہمارے بھی

تا صبح گرے آنسو اور آنکھ نہیں جھپکی
اس بات کے شاہد ہیں ڈوبے ہوئے تارے بھی

دل کھو کے ملا ہم کو جو کچھ وہ بہت کچھ ہے
اس عشق کی بازی میں ہم جیتے بھی ہارے بھی

جو کچھ تھا مرے دل میں میں نے تو کہا تم سے
اب تم بھی کہو جو کچھ ہے دل میں تمہارے بھی

کیوں بحر محبت میں ہے خوف اجل ناطقؔ
مرنے کو تو مرتے ہیں دریا کے کنارے بھی