صدیوں سے زمانے کا یہ انداز رہا ہے
سایہ بھی جدا ہو گیا جب وقت پڑا ہے
بھولے سے کسی اور کا رستہ نہیں چھوتے
اپنی تو ہر اک شخص سے رفتار جدا ہے
اس رند بلا نوش کو سینے سے لگا لو
مے خانے کا زاہد سے پتا پوچھ رہا ہے
منجدھار سے ٹکرائے ہیں ہمت نہیں ہارے
ٹوٹی ہوئی پتوار پہ یہ زعم رہا ہے
گھر اپنا کسی اور کی نظروں سے نہ دیکھو
ہر طرح سے اجڑا ہے مگر پھر بھی سجا ہے
میکش کسی تفریق کے قائل ہی نہیں ہیں
واعظ کے لیے بھی در مے خانہ کھلا ہے
یہ دور بھی کیا دور ہے اس دور میں یارو
سچ بولنے والوں کا ہی انجام برا ہے
غزل
صدیوں سے زمانے کا یہ انداز رہا ہے
جمیلؔ مرصع پوری