EN हिंदी
صدیوں سے انسان یہ سنتا آیا ہے | شیح شیری
sadiyon se insan ye sunta aaya hai

غزل

صدیوں سے انسان یہ سنتا آیا ہے

ساحر لدھیانوی

;

صدیوں سے انسان یہ سنتا آیا ہے
دکھ کی دھوپ کے آگے سکھ کا سایا ہے

ہم کو ان سستی خوشیوں کا لوبھ نہ دو
ہم نے سوچ سمجھ کر غم اپنایا ہے

جھوٹ تو قاتل ٹھہرا اس کا کیا رونا
سچ نے بھی انساں کا خوں بہایا ہے

پیدائش کے دن سے موت کی زد میں ہیں
اس مقتل میں کون ہمیں لے آیا ہے

اول اول جس دل نے برباد کیا
آخر آخر وہ دل ہی کام آیا ہے

اتنے دن احسان کیا دیوانوں پر
جتنے دن لوگوں نے ساتھ نبھایا ہے