صدیوں کے رنگ و بو کو نہ ڈھونڈو گپھاؤں میں
آؤ کسی سے پوچھو پتہ ان کا گاؤں میں
گھبرا کے بلبلے نے سمندر کی ذات سے
پھیلا دیا وجود کو ساری دشاؤں میں
آواز خود کو دو تو ملے کچھ جواب بھی
آخر پکارتے ہو کسے تم خلاؤں میں
ڈھونڈو تو دیوتاؤں کے آدرش ہیں بہت
پر آدمی کا رنگ کہاں دیوتاؤں میں
جوگی کو آج روپ کا وردان مل گیا
ٹھہرا جو دو گھڑی ترے پیپل کی چھاؤں میں
تھا ناز مجھ کو جس کی شناسائی پر وہی
پھیلا رہا ہے زہر مرے آشناؤں میں
آسیب حسرتوں کا انہیں کھائے ہے سلیمؔ
کٹتی تھی جن کی رات کبھی اپسراؤں میں

غزل
صدیوں کے رنگ و بو کو نہ ڈھونڈو گپھاؤں میں
سلیم شہزاد