EN हिंदी
صدیوں کے بعد ہوش میں جو آ رہا ہوں میں | شیح شیری
sadiyon ke baad hosh mein jo aa raha hun main

غزل

صدیوں کے بعد ہوش میں جو آ رہا ہوں میں

ذوالفقار نقوی

;

صدیوں کے بعد ہوش میں جو آ رہا ہوں میں
لگتا ہے پہلے جرم کو دہرا رہا ہوں میں

پر ہول وادیوں کا سفر ہے بہت کٹھن
لے جا رہا ہے شوق چلا جا رہا ہوں میں

خالی ہیں دونوں ہاتھ اور دامن بھی تار تار
کیوں ایک مشت خاک پہ اترا رہا ہوں میں

شوق وصال یار میں اک عمر کاٹ دی
اب بام و در سجے ہیں تو گھبرا رہا ہوں میں

شاید ورق ہے پڑھ لیا کوئی حیات کا
بن کر فقیہ شہر جو سمجھا رہا ہوں میں

ساحل پہ بیٹھا دیکھ کے موجوں کا اضطراب
الجھی ہوئی سی گتھیاں سلجھا رہا ہوں میں