صدیوں کا درد میرے کلیجے میں پال کر
لمحہ گزر گیا مجھے حیرت میں ڈال کر
ساحل پہ موتیوں کا خزانہ عجب ملا
پانی اتر گیا کئی لاشیں اچھال کر
آنکھوں سے بول بول کے اب تھک چکا ہوں میں
ظالم مری زباں کا تکلم بحال کر
ایسا نہ ہو کہ چاٹ لے ساحل کو تشنگی
اے موج اب تو آ کوئی رستہ نکال کر
تو نے تو نوچ لی مرے تاروں کی روشنی
پچھتا رہا ہوں اب تجھے اونچا اچھال کر
مرنے کے بعد بھی رہوں زندہ ہزار سال
یا رب مرے ہنر کو عطا وہ کمال کر

غزل
صدیوں کا درد میرے کلیجے میں پال کر
سورج نرائن