EN हिंदी
سدا رہے تیرا غم سلامت یہی اثاثہ ہے آبرو کا | شیح شیری
sada rahe tera gham salamat yahi asasa hai aabru ka

غزل

سدا رہے تیرا غم سلامت یہی اثاثہ ہے آبرو کا

جمال پانی پتی

;

سدا رہے تیرا غم سلامت یہی اثاثہ ہے آبرو کا
یہ دولت دل بہم نہ ہوتی تو کون پرساں تھا آرزو کا

امڈ کے آیا ہے اے عزیزو روش روش سیل رنگ و بو کا
مگر نہ پھر بھی نصیب چمکا اگر مری خاک بے نمو کا

مثال صبح بہار تو ہے تو میں ہوں شام خزاں کی صورت
چمن چمن خار و خس سے میرے فروغ ہے تیرے رنگ و بو کا

بسے تو میرے مشام جاں میں مہک ترے نامۂ نفس کی
کھلے تو پرچم کبھی مرے دوش پر تری زلف مشکبو کا

مسافران سفینۂ جاں رواں ہیں کن منزلوں کی جانب
ہوا کی زد پر شب سیہ میں علم کئے بادباں لہو کا

قبائے جاں تار تار اپنی ہوئی بہت کاوش رفو میں
مگر اسی سے کھلا ہے آخر بھرم ہر اک چاک ہر رفو کا

جو میرے احساس بے زباں کو زباں ملی تو چمک اٹھا ہے
شرارہ بن کر کہیں نوا کا چراغ بن کر کہیں پہ لو کا