EN हिंदी
صدا و خامشی کے درمیاں ٹھہرتا ہے | شیح شیری
sada-o-KHamshi ke darmiyan Thaharta hai

غزل

صدا و خامشی کے درمیاں ٹھہرتا ہے

مہندر کمار ثانی

;

صدا و خامشی کے درمیاں ٹھہرتا ہے
ترا خیال سخن میں کہاں ٹھہرتا ہے

ہماری قید ہمارے اسی خیال سے ہے
ہمارے راستے میں اک مکاں ٹھہرتا ہے

روش روش جو ہے پیدا نظر کے سامنے وہ
ذرا سا دیکھنے پر سب نہاں ٹھہرتا ہے

اگر وہ وصل کا لمحہ ہمیں میسر ہو
تو سارا عشق ہی کار زیاں ٹھہرتا ہے

ٹھہر کے دیکھ گھڑی بھر کے واسطے ثانیؔ
مقام کیا ہے جہاں یہ جہاں ٹھہرتا ہے