EN हिंदी
صدائے ذات کے اونچے حصار میں گم ہے | شیح شیری
sada-e-zat ke unche hisar mein gum hai

غزل

صدائے ذات کے اونچے حصار میں گم ہے

عباس تابش

;

صدائے ذات کے اونچے حصار میں گم ہے
وہ خامشی کا مسافر پکار میں گم ہے

وہ شہر شب کے کنارے چراغ جلتا ہے
کہ کوئی صبح مرے انتظار میں گم ہے

یہ کہہ رہی ہیں کسی کی جھکی جھکی آنکھیں
بدن کی آنچ نظر کے خمار میں گم ہے

ہر ایک سمت سے اس کو صدائیں آتی ہیں
مجھے پکار کے خود بھی پکار میں گم ہے

نئے چراغ جلا مجھ کو ڈھونڈنے والے
تری نظر تو نظر کے غبار میں گم ہے