صدائے ذات کے اونچے حصار میں گم ہے
وہ خامشی کا مسافر پکار میں گم ہے
وہ شہر شب کے کنارے چراغ جلتا ہے
کہ کوئی صبح مرے انتظار میں گم ہے
یہ کہہ رہی ہیں کسی کی جھکی جھکی آنکھیں
بدن کی آنچ نظر کے خمار میں گم ہے
ہر ایک سمت سے اس کو صدائیں آتی ہیں
مجھے پکار کے خود بھی پکار میں گم ہے
نئے چراغ جلا مجھ کو ڈھونڈنے والے
تری نظر تو نظر کے غبار میں گم ہے
غزل
صدائے ذات کے اونچے حصار میں گم ہے
عباس تابش