صدائے آفریں اٹھی تھی جست ایسی تھی
خبر نہ تھی کہ مقدر شکست ایسی تھی
نظر ہٹا نہ سکا رائے کس طرح لیتا
وہ سب کو دیکھ رہا تھا نشست ایسی تھی
اسے خیال یہ گزرا کہ گر گئی دیوار
دل حزیں کی صدائے شکست ایسی تھی
میں تعینات کے الجھاؤ توڑ ہی بیٹھا
صدائے دوست صدائے الست ایسی تھی
میں اپنے آپ کو بھی کھل کے پیش کر نہ سکا
وقارؔ ذہنیت وقت پست ایسی تھی

غزل
صدائے آفریں اٹھی تھی جست ایسی تھی
وقار واثقی