EN हिंदी
سچ تو یہ ہے کہ اسے دھوپ نے گرمایا تھا | شیح شیری
sach to ye hai ki use dhup ne garmaya tha

غزل

سچ تو یہ ہے کہ اسے دھوپ نے گرمایا تھا

نعیم اختر

;

سچ تو یہ ہے کہ اسے دھوپ نے گرمایا تھا
ہاں وہ پودا جو تری چھاؤں میں کمھلایا تھا

رات کس نے مری تنہائی کو مہکایا تھا
بوئے گل آئی تھی یا تیرا خیال آیا تھا

دیکھنے والے وہ منظر نہیں بھولے اب تک
میں کبھی آپ کی آنکھوں میں نظر آیا تھا

کتنے قصوں کو دیا جنم ترے اشکوں نے
میں بہت خوش تھا کہ دامن مرا کام آیا تھا

کچھ خیال آیا سرابوں میں بھٹکنے والے
کس کی آواز نے دریا پہ تجھے لایا تھا

اب تو بہتر ہے یہی کچھ بھی نہ یاد آئے نعیمؔ
موسم گل میں کسے کھویا تھا کیا پایا تھا