سچ تو یہ ہے کہ اسے دھوپ نے گرمایا تھا
ہاں وہ پودا جو تری چھاؤں میں کمھلایا تھا
رات کس نے مری تنہائی کو مہکایا تھا
بوئے گل آئی تھی یا تیرا خیال آیا تھا
دیکھنے والے وہ منظر نہیں بھولے اب تک
میں کبھی آپ کی آنکھوں میں نظر آیا تھا
کتنے قصوں کو دیا جنم ترے اشکوں نے
میں بہت خوش تھا کہ دامن مرا کام آیا تھا
کچھ خیال آیا سرابوں میں بھٹکنے والے
کس کی آواز نے دریا پہ تجھے لایا تھا
اب تو بہتر ہے یہی کچھ بھی نہ یاد آئے نعیمؔ
موسم گل میں کسے کھویا تھا کیا پایا تھا

غزل
سچ تو یہ ہے کہ اسے دھوپ نے گرمایا تھا
نعیم اختر