سچ کو کہنے کا حوصلہ ہے مجھے
اپنے انجام کا پتہ ہے مجھے
نیند سے خواب ہو گئے رخصت
زندگی جیسے اک سزا ہے مجھے
اس نے رغبت سے ہاتھ کھینچ لیا
اب کہاں کوئی سوچتا ہے مجھے
دوستی کا بھرم ہی توڑ دیا
ان دنوں جانے کیا ہوا ہے مجھے
جس کی نیندوں میں خواب میرے تھے
جب سے جاگا ہے ڈھونڈتا ہے مجھے
چند جلتے سوال بجھتا دل
زندگی تو نے کیا دیا ہے مجھے
سارے رشتے جب اس نے توڑ لئے
مڑ کے اب کیا پکارتا ہے مجھے
اب ہوں بجھتے دیئے سا سورج تھا
ان حوالوں کو سوچنا ہے مجھے
کیوں تپشؔ الجھنوں میں الجھا ہے
اس کے بارے میں جاننا ہے مجھے

غزل
سچ کو کہنے کا حوصلہ ہے مجھے
مونی گوپال تپش