سچ چھپاتی رہی ہوا یعنی
دشت کا حال اور تھا یعنی
بندشیں روح و جسم پر خوش ہوں
قید میں بھی ہے اک مزہ یعنی
گر خدا بن نہیں ہے کچھ بھی یہاں
ہے خدا کا بھی اک خدا یعنی
لوریاں سبکیاں میں بدلی ہیں
کوئی سچ مچ میں سو گیا یعنی
عشق کی روح کانپ اٹھی ہے
جسم نے جسم چھو لیا یعنی
غزل
سچ چھپاتی رہی ہوا یعنی
چراغ بریلوی