سچ بولنے کے طور طریقے نہیں رہے
پتھر بہت ہیں شہر میں شیشے نہیں رہے
ویسے تو ہم وہی ہیں جو پہلے تھے دوستو
حالات جیسے پہلے تھے ویسے نہیں رہے
خود مر گیا تھا جن کو بچانے میں پہلے باپ
اب کے فساد میں وہی بچے نہیں رہے
دریا اتر گیا ہے مگر بہہ گئے ہیں پل
اس پار آنے جانے کے رستے نہیں رہے
سر اب بھی کٹ رہے ہیں نمازوں میں دوستو
افسوس تو یہ ہے کہ وہ سجدے نہیں رہے

غزل
سچ بولنے کے طور طریقے نہیں رہے
نواز دیوبندی