سبز شاخوں پہ زمانے کی نظر ہوتی ہے
کس کو سوکھے ہوئے پتوں کی خبر ہوتی ہے
صدف چشم سے باہر جو نہ آنے پائے
بوند اشکوں کی وہی مثل گہر ہوتی ہے
یاد غربت میں جب آتی ہے وطن کی مجھ کو
ناگہاں آنکھ مری اشکوں سے تر ہوتی ہے
دفعتاً دل کا ہر اک زخم ابھر جاتا ہے
جب بھی تصویر تری پیش نظر ہوتی ہے
شام ہوتے ہی سلگ جاتے ہیں ہر گھر میں چراغ
ڈوب جاتے ہیں ستارے تو سحر ہوتی ہے
پھول تو پھول ہیں پتے نہیں اگتے جن میں
ایسے پیڑوں سے بھی امید ثمر ہوتی ہے
عیب جوئی میں شب و روز گزاریں جو اثرؔ
اپنے کردار پہ کب ان کی نظر ہوتی ہے
غزل
سبز شاخوں پہ زمانے کی نظر ہوتی ہے
محفوظ اثر