سبز موسم کی رفاقت اس کا کاروبار ہے
پیڑ کب سوکھے ہوئے پتوں کا حصے دار ہے
پھر مہاجن بانٹ لیں گے اپنی ساری کھیتیاں
قرض کی فصلوں پہ جینا کس قدر دشوار ہے
احتیاط و خوف والے ڈوبتے ہیں بیشتر
جن کو ہے خود پر بھروسہ وہ ندی کے پار ہے
مطمئن بیٹھے ہو تم نے یہ بھی سوچا ہے کبھی
جس کا سایہ سر پہ ہے وہ ریت کی دیوار ہے
آگ کا لشکر ہے صف باندھے ہمارے سامنے
کیا کریں ہم ہاتھ میں تو موم کی تلوار ہے
پتھروں کو شہر کے رہتی ہے موقع کی تلاش
کانچ کے پیکر میں رہنا کس قدر دشوار ہے

غزل
سبز موسم کی رفاقت اس کا کاروبار ہے
فاروق انجم