سبز ہے پیرہن چاند کا آج پھر
رنگ رخسار ہے سرخ سا آج پھر
کر گئی کام تیری ادا آج پھر
صحن گل نے کہا مرحبا آج پھر
تیرے پیکر کو چھو کر چلی آئی ہے
مرمریں ہے بدن رات کا آج پھر
لے کے آغوش میں چاند کو آسماں
منہ زمیں کو چڑھاتا رہا آج پھر
یاد چندن ونوں سے گزرتی رہی
من میں صندل مہکتا رہا آج پھر
دل کی ناکامیاں ہی خطاوار ہیں
وہ گناہوں کا ہے دیوتا آج پھر
چاند سورج ہوئے آمنے سامنے
امتحاں ساگروں کا رہا آج پھر
آؤ آلوکؔ سیر چمن کو چلیں
اٹھ کے آئی ہے کالی گھٹا آج پھر
غزل
سبز ہے پیرہن چاند کا آج پھر
آلوک یادو