صبر و قرار ٹوٹ گیا اضطراب سے
پھر راز کھل گیا مری آنکھوں کے آب سے
اس دل کے ساز پر کسی برہن کا گیت ہے
آنے لگی ہیں سسکیاں دل کے رباب سے
جانے سے پہلے اس نے مجھے دیوتا کہا
میں عمر بھر نہ چھوٹ سکا اس خطاب سے
پھر یاد آ گئے وہی کالج کے دن مجھے
سوکھے گلاب نکلے پرانی کتاب سے
بربادیوں میں میری کہاں کس کا ہاتھ ہے
تم خود ہی پوچھ لو دل خانہ خراب سے
جن کو گمان تھا کہیں کوئی خدا نہیں
قومیں نہ بچ سکیں وہ خدا کے عذاب سے
کافور پل میں ہوتی ہے دن بھر کی سب تھکن
جب دیکھتا ہوں بچوں کے چہرے گلاب سے
رکھئے بہت خیال حقوق العباد کا
دینا پڑے گا حق وہاں سب کا حساب سے
شایانؔ تجھ کو آرزو جنت کی ہے اگر
دل کو لگا لے اپنے خدا کی کتاب سے
غزل
صبر و قرار ٹوٹ گیا اضطراب سے
شایان قریشی