EN हिंदी
صبر خود اکتا گیا اچھا ہوا | شیح شیری
sabr KHud ukta gaya achchha hua

غزل

صبر خود اکتا گیا اچھا ہوا

یعقوب عثمانی

;

صبر خود اکتا گیا اچھا ہوا
کچھ تو بوجھ احساس کا ہلکا ہوا

وہ غرور ہوشمندی کیا ہوا
جو قدم پڑتا ہے وہ بہکا ہوا

چھیڑ بیٹھا وقت اپنی راگنی
ساز پر جب آپ کا قبضہ ہوا

تک رہا ہے خود انہی کی انجمن
فتنہ فتنہ ان کا چونکایا ہوا

روپ بدلا ہے سحر کا رات نے
دیکھنے والو تمہیں دھوکا ہوا

کر رہے ہو کس سے تم ذکر چمن
غنچہ غنچہ ہے مرا دیکھا ہوا

آپ کج رو ہیں کہ سب کج فہم ہیں
حل بڑی مشکل سے یہ عقدہ ہوا

مصلحت یعقوبؔ کیوں ہے دم بخود
راز کس کی بزم کا افشا ہوا