سبھی سمتوں کو ٹھکرا کر اڑی جائے
کہاں تک جانے گرد گم رہی جائے
بچا کر اپنے سائے کو کہاں رکھوں
کہ شب تو ہر طرف کو پھیلتی جائے
کوئی دیوار ہے تیری سماعت بھی
کہ جو آواز آئے لوٹتی جائے
نہ پہروں لکھ سکوں میں کوئی بات اپنی
عجب سی گرد کاغذ پر جمی جائے
اچانک ٹوٹ جائے قصر تنہائی
کوئی آواز کھڑکی کھولتی جائے
سنا ہے میں صداؤں کا سمندر ہوں
یہ سناٹا کہیں مجھ کو نہ پی جائے
وہاں بسنے کی خواہش منہ تکے میرا
عمارت بنتے بنتے ٹوٹتی جائے
ابھرتے جائیں رنگوں کے کھلے منظر
مگر بے فرصتی آنکھوں کو سی جائے
یوں ہی کھپتے نہ جائیں روز و شب میں ہم
کبھی تو بات بے موسم بھی کی جائے
یہ تم کس کے لئے جلتے ہو گوشوں میں
چلو چھت پر سڑک تک روشنی جائے
غزل
سبھی سمتوں کو ٹھکرا کر اڑی جائے
چندر پرکاش شاد