سبھی بچھڑ گئے مجھ سے گزرتے پل کی طرح
میں گر چکا ہوں کسی خواب کے محل کی طرح
نواح جسم میں روتا کراہتا دن رات
مجھے ڈراتا ہے کوئی مری اجل کی طرح
یہ شہر ہے یہاں اپنی ہی جستجو میں لوگ
ملیں گے چلتے ہوئے چیونٹیوں کے دل کی طرح
میں اس سے ملتا رہا آج کی توقع پر
وہ مجھ سے دور رہا آنے والے کل کی طرح
نگر میں ذہن کے پھر شام سے ہے سناٹا
اداس اداس ہے دل میرؔ کی غزل کی طرح
نڈھال دیکھ کے بستر میں نیند کی پریاں
پھر آج مجھ سے خفا ہو گئی ہیں کل کی طرح
غزل
سبھی بچھڑ گئے مجھ سے گزرتے پل کی طرح
آفتاب شمسی