سبق عمر کا یا زمانے کا ہے
سب آموختہ بھول جانے کا ہے
یہ گم ہوتے چہرے یہ منظر یہ گرد
سماں رات دن یاں سے جانے کا ہے
رکے ہیں کہ ٹک دیکھ لیں سوچ لیں
توقف تکلف بہانے کا ہے
یہ صدیوں کا محکم منظم سکوت
طلسم ایک چٹکی بجانے کا ہے
مہک سانس سبزۂ قبر کی
کنایہ سا جیسے بلانے کا ہے
وضاحت نہ قربت کی کیجے طلب
کہ یہ سلسلہ دور جانے کا ہے
قفس میں مرے ذہن کے مضطرب
یہ تنکا ترے آشیانے کا ہے
الگ اک کہانی سا لگتا ادھر
تسلسل ادھر کے فسانے کا ہے
گئے دن سمجھنے پرکھنے کے سازؔ
یہ موسم تو بس مان جانے کا ہے
غزل
سبق عمر کا یا زمانے کا ہے
عبد الاحد ساز