EN हिंदी
سبق عمر کا یا زمانے کا ہے | شیح شیری
sabaq umr ka ya zamane ka hai

غزل

سبق عمر کا یا زمانے کا ہے

عبد الاحد ساز

;

سبق عمر کا یا زمانے کا ہے
سب آموختہ بھول جانے کا ہے

یہ گم ہوتے چہرے یہ منظر یہ گرد
سماں رات دن یاں سے جانے کا ہے

رکے ہیں کہ ٹک دیکھ لیں سوچ لیں
توقف تکلف بہانے کا ہے

یہ صدیوں کا محکم منظم سکوت
طلسم ایک چٹکی بجانے کا ہے

مہک سانس سبزۂ قبر کی
کنایہ سا جیسے بلانے کا ہے

وضاحت نہ قربت کی کیجے طلب
کہ یہ سلسلہ دور جانے کا ہے

قفس میں مرے ذہن کے مضطرب
یہ تنکا ترے آشیانے کا ہے

الگ اک کہانی سا لگتا ادھر
تسلسل ادھر کے فسانے کا ہے

گئے دن سمجھنے پرکھنے کے سازؔ
یہ موسم تو بس مان جانے کا ہے