EN हिंदी
سبق ایسا پڑھا دیا تو نے | شیح شیری
sabaq aisa paDha diya tu ne

غزل

سبق ایسا پڑھا دیا تو نے

داغؔ دہلوی

;

سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے

ہم نکمے ہوئے زمانے کے
کام ایسا سکھا دیا تو نے

کچھ تعلق رہا نہ دنیا سے
شغل ایسا بتا دیا تو نے

کس خوشی کی خبر سنا کے مجھے
غم کا پتلا بنا دیا تو نے

کیا بتاؤں کہ کیا لیا میں نے
کیا کہوں میں کی کیا دیا تو نے

بے طلب جو ملا ملا مجھ کو
بے غرض جو دیا دیا تو نے

عمر جاوید خضر کو بخشی
آب حیواں پلا دیا تو نے

نار نمرود کو کیا گلزار
دوست کو یوں بچا دیا تو نے

دست موسیٰ میں فیض بخشش ہے
نور و لوح و عصا دیا تو نے

صبح موج نسیم گلشن کو
نفس جاں فزا دیا تو نے

شب تیرہ میں شمع روشن کو
نور خورشید کا دیا تو نے

نغمہ بلبل کو رنگ و بو گل کو
دلکش و خوش نما دیا تو نے

کہیں مشتاق سے حجاب ہوا
کہیں پردہ اٹھا دیا تو نے

تھا مرا منہ نہ قابل لبیک
کعبہ مجھ کو دکھا دیا تو نے

جس قدر میں نے تجھ سے خواہش کی
اس سے مجھ کو سوا دیا تو نے

رہبر خضر و ہادی الیاس
مجھ کو وہ رہنما دیا تو نے

مٹ گئے دل سے نقش باطل سب
نقشہ اپنا جما دیا تو نے

ہے یہی راہ منزل مقصود
خوب رستے لگا دیا تو نے

مجھ گنہ گار کو جو بخش دیا
تو جہنم کو کیا دیا تو نے

داغؔ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تو نے