صبا بناتے ہیں غنچہ دہن بناتے ہیں
تمہارے واسطے کیا کیا سخن بناتے ہیں
سنان و تیر کی لذت لہو میں رم کرے ہے
ہم اپنے آپ کو کس کا ہرن بناتے ہیں
یہ دھج کھلاتی ہے کیا گل ذرا پتا تو چلے
کہ خاک پا کو تری پیرہن بناتے ہیں
وہ گل عذار ادھر آئے گا سو داغوں سے
ہم اپنے سینے کو رشک چمن بناتے ہیں
شہید ناز غضب کے ہنر وراں نکلے
لہو کے چھینٹوں سے اپنا کفن بناتے ہیں
تمہاری ذات حوالہ ہے سرخ روئی کا
تمہارے ذکر کو سب شرط فن بناتے ہیں
غزل
صبا بناتے ہیں غنچہ دہن بناتے ہیں
امیر حمزہ ثاقب