سب طرح کے حالات کو امکان میں رکھا
ہر لمحہ اسے سوچ میں وجدان میں رکھا
ہجرت کی گھڑی ہم نے ترے خط کے علاوہ
بوسیدہ کتابوں کو بھی سامان میں رکھا
مجھ کو مری قامت کے مطابق بھی جگہ دی
یہ پھول اٹھا کر کبھی گلدان میں رکھا؟
اک عمر گزاری نئے آہنگ سے لیکن
اجداد کی اقدار کو بھی دھیان میں رکھا
اک روز سیہ رات ہتھیلی پہ سجا کر
صحرا نے قدم خطۂ گنجان میں رکھا
ہونٹوں کو سدا رکھا تبسم سے عبارت
اک زہر بجھا تیر بھی مسکان میں رکھا
غزل
سب طرح کے حالات کو امکان میں رکھا
افتخار شفیع