سب تمناؤں سے خوابوں سے نکل آئے ہیں
ہم بہت دور سرابوں سے نکل آئے ہیں
خود کو جب بھول سے جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے
زندگی تیرے عذابوں سے نکل آئے ہیں
روشنی مجھ کو ملی ہے تو ذرا جانچ تو لوں
آج سب چہرے نقابوں سے نکل آئے ہیں
ہم نکل آئے بہشت شب تنہائی سے
اور کچھ لوگ حجابوں سے نکل آئے ہیں
ہم بھی اس شہر کی ویران سی رونق میں کہاں
اپنے مانوس خرابوں سے نکل آئے ہیں
غزل
سب تمناؤں سے خوابوں سے نکل آئے ہیں
اقبال اشہر قریشی