سب شریک صدمہ و آزار کچھ یوں ہی سے ہیں
یار کچھ یوں ہی سے ہیں غم خوار کچھ یوں ہی سے ہیں
ان کے سب افعال سب اطوار کچھ یوں ہی سے ہیں
قول کچھ یوں ہی سے ہیں اقرار کچھ یوں ہی سے ہیں
اپنے دیوانے سے مل لیجے اسی میں خیر ہے
آپ ابھی رسوا سر بازار کچھ یوں ہی سے ہیں
جس جگہ دیکھو نصیحت کے لیے موجود ہیں
حضرت ناصح خدائی خوار کچھ یوں ہی سے ہیں
دست وحشت نے گریباں کا صفایا کر دیا
جیب کے پردے میں تھوڑے تار کچھ یوں ہی سے ہیں
ان کے آنے کی خبر سن کر اڑا دی ہے خبر
ورنہ مضطرؔ واقعی بیمار کچھ یوں ہی سے ہیں
غزل
سب شریک صدمہ و آزار کچھ یوں ہی سے ہیں
مضطر خیرآبادی