EN हिंदी
سب سے تو بد گمان ہے پیارے | شیح شیری
sab se tu bad-guman hai pyare

غزل

سب سے تو بد گمان ہے پیارے

صفی اورنگ آبادی

;

سب سے تو بد گمان ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے

چاند سورج میں تیری بات کہاں
ان کی اونچی دکان ہے پیارے

ہے الگ بات بات کا انداز
اپنی اپنی زبان ہے پیارے

سو سنوں اور ایک بھی نہ کہوں
منہ ہے منہ میں زبان ہے پیارے

اب خدا لے اسے کہ تو ہی لے
بس مری ایک جان ہے پیارے

دل ہے کیا مال جان ہے کیا چیز
تو ہی دل تو ہی جان ہے پیارے

نہ بچا ایک آن بھی عاشق
ہائے کیا تجھ میں آن ہے پیارے

اب مجھے احتیاج کس کی ہے
تو ہی دنیا جہان ہے پیارے

بوالہوس اور عشق کا دعویٰ
تیرا منہ درمیان ہے پیارے

کیوں نہ رخصت ہوں مجھ سے میرے ہوش
آج تو میہمان ہے پیارے

کیا کسی کی سنوں شب وعدہ
تیری آہٹ پہ کان ہے پیارے

دل کے جاتے ہی کاش موت آتی
مجھ کو تجھ پر گمان ہے پیارے

حال میرا ذرا تو سن کر دیکھ
پیار کی داستان ہے پیارے

آئنہ دیکھ کر نہ دیکھ مجھے
کون تجھ سا جوان ہے پیارے

کسر نفسی نہیں تجھے زیبا
یہ تو میری زبان ہے پیارے

تیری دہلیز ہر نراسے کو
آس کی آستان ہے پیارے

اے صفیؔ اب دکن کہاں وہ دکن
یہ تو ہندوستان ہے پیارے