سب رنگ وہی ڈھنگ وہی ناز وہی تھے
اس بار تو موسم کے سب انداز وہی تھے
بس عجز کی خوشبو کی جگہ کبر کی بو تھی
لہجے میں ذرا فرق تھا الفاظ وہی تھے
کیا جانیے کیوں اب کے مرے دل میں نہ اترے
سر لے وہی آواز وہی ساز وہی تھے
جو ننگ خلائق تھے جو دشمن تھے وطن کے
سینوں پہ سجائے ہوئے اعزاز وہی تھے
جبریل سے آگے گئے جو نور سراپا
شہباز وہی حاصل پرواز وہی تھے
غزل
سب رنگ وہی ڈھنگ وہی ناز وہی تھے
ارشد القادری