سب مرا آب رواں کس کے اشاروں پہ بہا جاتا ہے
اور اک شہر مرے دونوں کناروں پہ بسا جاتا ہے
موج میں آتے ہی لگ جاتی ہے ہونٹھوں پہ بدن کی مٹی
اور اس ذائقہ غیر سے سب میرا مزا جاتا ہے
اہل ایماں ادھر آرائش مسجد میں لگے ہیں اور ادھر
اپنا سامان اٹھائے ہوئے مسجد سے خدا جاتا ہے
کوئی مجھ جیسا ہی روز آتا ہے آنکھوں میں لیے سبزۂ دشت
اک ہرا خط در و دیوار کو دیتا ہے چلا جاتا ہے
چلتی ہے آئنے میں کتنے زمانوں کی ہوائے حیرت
ایک رنگ آتا ہے چہرے پہ تو اک رنگ اڑا جاتا ہے
میری اک عمر اور اک عہد کی تاریخ رقم ہے جس پر
کیسے روکوں کہ وہ آنسو مری آنکھوں سے گرا جاتا ہے
چاک کرنا ہی گریباں کا سکھایا ہے جنوں نے مجھ کو
میں نے سیکھا ہی نہیں کیسے گریباں کو سیا جاتا ہے
فرحتؔ احساس نے دیکھا ہے فلک پر کہیں اک خطہ خواب
بیچ ڈالی ہے تمام ارض بدن اس نے سنا جاتا ہے
غزل
سب مرا آب رواں کس کے اشاروں پہ بہا جاتا ہے
فرحت احساس